According to the Quran-e-Karim, all mankind are equal(تمام انسان برابر ہیں),& that Allah does not look to our race or color, but to our piety and righteous actions.[49:13]

Awam Encyclopedia

Encyclopedia about Castes & Tribes in Urdu and English, Castes and Tribes History, People, Customs, Culture and all abouts in Urdu and English.


ان کا نام میاں نصیر احمد لقب شیخ العلماء،استاذ الاساتذہ، عالم قرآن و سنت المشہور میاں صاحب قصہ خوانی قطب شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ولادت ان کی ولادت 1228ھ 1813ء پشاور میں ہوئی تعلیم الحاج میاں نصیر احمد صاحب نے صوبہ سرحد کے علماء سے علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ اپنے وقت کے علامہ اجل فاضل اکمل مفسر قرآن ، شارح حدیث حضرت مولانا مولوی محمد احسن صاحب پشاوری سے سند فراغت حاصل کر کے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے ۔آپ کے تحبر علمی کا شہرہ سن کر دور دراز سے طلبا آنے لگے ۔ اورآپ کے وجود نے ایک علمی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ۔ آپ کے درس میں کابل ، بلخ اور بخارا تک کے طالبان علم موجود تھے ۔ فارغ التحصیل علماء آپ سے اکتساب علوم کرتے۔ تعمیر مسجد پشاور شہر میں آپ نے ایک جامع مسجد تعمیر کروائی ، یہ مسجد تبلیغ و تدریس کا مرکز تھی۔ اس مسجد کا نام ہی آپ کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی ’’ مسجد میاں صاحب قصہ خوانی ‘‘ اسی طرح یہ مسجد عقائد حقہ اہل سنت و جماعت کی تبلیغ کا مرکز ہے اور حضرت صاحب کے وقت سے لے کر اب تک اس مسجد سے احیا ء دین ہو رہا ہے اور اسی طرح قرآن و حدیث کا درس جاری ہے۔ تبصرہ کتب آپ نے بہت کتابوں پر تبصرے لکھے ۔ کافی کتابوں کی تصحیح کی۔ حواشی لکھے، اور عقائد باطلہ پر کتابیں لکھیں ۔ منح الباری شرح صحیح البخاری پارۂ اوّل مصنفہ ، حافظ دراز صاحب پشاوری ؒ کی تصحیح کر کے چھپوائی ۔ ’’ اسرار الطریقت ‘‘ مصنفہ قطب العالم سید شاہ محمد غوث پشاوری ثم لاہوری کی تصحیح کی اور شائع کی۔ ’’اسماء الحسنی ‘‘ کی شرح فارسی میں لکھی ۔ علم نحو کی مشہور کتاب ’’ کافیہ ‘‘ کی مکمل ترکیب لکھی ۔ ’’ شاطبی ‘‘ پر حواشی لکھے ، اور غیر مقلدین کے رد میں عربی میں ایک مستقل کتاب مسمی بہ ’’ احقاق الحق ‘‘ لکھی جس میں تفصیل کے ساتھ اس فرقہ کا رد فرمایا ہے۔آپ کے کتب خانہ میں تقریباً چھ ہزار کتابیں تھیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ شاگرد حضرت میاں صاحب کے ویسے تو ہزاروں شاگرد تھے ، جناب ملا منصور صاحب معقولی ، جناب حافظ سر بلند صاحب، جناب قاضی صاحب بڈھنی (جن کی فقاہت کا سکہ صوبہ سرحد میں بیٹھا ہوا ہے اور آپ کا فتویٰ جاری ہے) جناب حافظ صاحب بدھائی ، جناب مفتی عظیم اللہ صاحب ، جناب قاضی سراج الدین صاحب ، جناب مفتی صاحبزادہ شکر دین صاحب معقولی ۔ استاذ کل پیر علی شاہ صاحب ڈھکی نعلبندی ۔ شیخ المشائخ الحاج آقا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی ؒ، جناب خان بہادر کریم بخش صاحب سیٹھی ، وغیرہ وغیرہ ان میں سے ہر صاحب ، علوم متداولہ میں مکمل گذرے ہیں۔ صوبہ سرحد میں دین اسلام کے روشن اور جگمگاتے ستارے تھے۔ کوئی قرآن ، حدیث اور فقہہ میں خصوصیت رکھتا تھا تو کوئی عرفان الہٰی اور سلوک و تصوف کا حامل تھا۔ توکوئی علوم عقلیہ و نقلیہ میں یکتائے وقت تھا۔ اور آج تک ان کے فیض یافتہ اور شاگرد ہمت و استقلال کے ساتھ دین محمدی ﷺ کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ میں تحقیق حق کا جذبہ صادقہ اپنی نرالی شان رکھتا تھا۔ معاصر علماء کے اختلاف کو آمنے سامنے بیٹھ کر تحقیق فرماتے۔ فتاویٰ ایک بار علماء سوات نے بسر کردگیء شیخ الاسلام و المسلمین حضرت اخوند صاحب سوات ؒ فتویٰ دیا کہ بغیر محراب کے جماعت نہیں ہوتی ، یہ مسئلہ پشاور پہنچا آپ دیکھ کر حیران ہوگئے۔ یہاں سے شیخ المشائخ حضرت آقا پیر جان صاحب قادری ؒ، حضرت آقا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی ؒ ، مولینا مولوی سراج الدین لاہوری کو ساتھ لے کر تحقیق حق کے لئے سوات تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ الاسلام والمسلمین باباجی صاحب سواتؒ کے ہاں قیام کیا اور مسلسل تین دن تک ان علماء سے گفتگو ہوئی۔تحقیق حق کی گئی اور پہلے فتویٰ پر نظر ثانی کرنے کے بعد دوبارہ شریعت محمدیہ کے مطابق فتویٰ دیا گیا ۔ جناب حضرت اخوند صاحب سوات ؒ نے ان صاحبان کی بڑی قدر و منزلت کرتے ہوئے رخصت کیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے پیشتر ہمارے علاقہ میں شریعت اسلامیہ کے مسائل کی تحقیق و تفتیش کا کتنا زبردست دینی جذبہ موجود تھا۔ اور اگر کسی دینی مسئلہ میں نزاع پیدا ہوجاتا تو علماء اور مشائخ یکجہتی کے ساتھ مسئلہ کو حل فرماتے تاکہ امت محمدیہ ﷺ تشتت و افتراق کا نشانہ نہ بنے ۔آپ کا فتویٰ صرف پشاور ہی میں نہیں بلکہ تمام علاقہ میں نافذ و رائج تھا۔ باہر علاقہ کے علماء کرام جب تک کسی فیصلہ پر آپ کی مہر تصدیق نہ دیکھتے دستخط ثبت نہ کرتے بلکہ آپ ؒکے پاس بھیج دیتے ۔ نسبت الحاج میاں صاحب، سلسلہ قادریہ کے خانوادہ نوشاہیہ میں اپنی خاندنی نسبت رکھتے تھے ۔ نیز طریقہ عالیہ قادریہ زاہدیہ میں حضرت شیخ الاسلام و المسلمین اخون صاحب سوات ؒ سے بیعت تھے۔ شاعر علاوہ ازیں کہ آپ کے عالم و فاضل بھی تھے ، بہترین شاعر بھی تھے ۔ بہت سے پندونصائخ نظم فرمائے۔ بزرگان کرام کی تعریف و توصیف میں خمسیں، غزلیں اور نظمیں اردو فارسی میں لکھیں ۔ ایک دفعہ الحاج قبلہ محترم عزت مآب آغا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے آپؒ کو کہا کہ ہمارا شجرۂ طریقت نظم فرماویں ۔ آپ نے بزرگان کرام کے اسماء طلب کئے اور اسی وقت نظم فرمادئیے۔ ہر ایک شعر ایک در بے بہا ہے ۔ تمام شجرہ طیبہ گویا کہ ایک موتیوں میں پرویا ہوا ایک خوب صورت ہار ہے۔ غرضیکہ آپ کی ذات ستودہ صفات ایک مکمل و اکمل ، عالم اجل ، فاضل اکمل ، عارف کامل اور بے نظیر شاعرتھی ۔ وفات آپ کی وفات بعمر اسی برس 18 رجب المرجب 1308ھ 1888ء بروز جمعہ بوقت عصر ہوئی ۔ آپ کی وفات پر شہر بند کر دیا گیا ۔ پشاور شہر اور صوبہ سرحد کے ہزاروں لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ [1] حوالہ جات تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 167تا 171،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور


قطب شاہی علوی کھوکھر    میاں محمد یعقوب علوی بیروٹوی    دیوال    ڈھرنال    اعوان پورہ    اللہ یار خان    یوسف جبریل    ڈھوک اعوان    ٹی سی ایس کورئیر    Awan and Other Tribes Population    سلطان بازید محمد    چھنی تاجہ ریحان    بیروٹ    کھودے    غلام مرتضٰی ملک شہید    حکیم احمد الدین    بھرپور    واصف علی واصف    خواجہ شمس الدین سیالوی    ابوالفضل کرم الدین دبیر    حافظ غلام احمد    حافظ محمد مقبول الرسول للہی    قاضی شمس الدین    حضرت سلطان باہو    بابر افتخار    دیگر مسلم قبائل    غلام نبی للہی    اولمپیئن ملک محمد نواز    میجر جنرل تجمل حسین ملک    مل اعوان    مکھڈ شریف    محمد حمید شاہد    عبدالستار علوی    خواجہ زین الدین    شور کوٹ    ملک منور خان نامزد نشان حیدر    جبی    غلام اللہ خان    محمد جمال الدین ملتانی    حفیظ ماہی    محمد یار فریدی    مرزا عبدالقادر بیدل    غازی سید سالار مسعود    خواجہ امیر احمد بسالوی    محمد اکرم نشان حیدر    سلطان غلام دستگیر فخر کشمیر    کندوال    گنگ اعوان    خادم حسین رضوی    احسان الحق قادری    گنگال اعوان    سید حامد سبزواری    ردھانی    ائیر مارشل نور خان    اعوان دوسروں کے نکتہ نظر سے    مرزا مظہر جان جاناں    تریڑ اعوان برادری    بھمب اعوان    یاسین ملک    بھون    سعد حسین رضوی    ملک میاں محمد    ملک المدرسین عطا محمد بندیالوی    دامن مہاڑ    قاضی سلطان محمود    قاضی نور عالم    تاریخ اعوان    حزیر اعوان    خواجہ فضل الدین کلیامی    بھاگوال    حافظ دوست محمد للہی    چاہ اگرال    ملک پور    اعوان شریف    بلال آباد    ڈیرۂ اعوان    نور سلطان القادری    سلطان ریاض الحسن    مجوکہ    میاں صاحب قصہ خوانی    ڈھوک بدہال    مرجان اعوان    ڈھوک بازا    راستی بی بی    انور بیگ اعوان    خواجہ احمد خان میروی    پنڈوال    شیر محمد اعوان    محمد علی مکھڈوی    مشعال ملک    اوچھالی    سیلواں    موڑہ گنگال    شیر شاہ اعوان وکٹوریہ کراس    اعوان کڑی    سلوئی شریف    غازی ممتاز قادری    ڈھوک گنگال    اعوان جینیاتی تھیوری        اعوان کلاں    میاں محمد جیون    گھلی اعوان    خواجہ شمس الدین سید پوری    محمد عبیداللہ علوی    احمد ندیم قاسمی    سولنگی اعوان